رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تجارتی اصول

رسولِ کریم ، رؤف رّحیم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہر ہر معاملہ میں کامل و اکمل ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے اور کیوں نہ ہو کہ ربُّ العالمین کا فرمان ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجَمۂ کنزُ الایمان  : بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (پ21 ، الاحزاب : 21)

انسانی زندگی میں تجارت کی اہمیت و ضرورت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اسے اچھے اور بہترین انداز میں چلانے اور ترقی دینے کیلئے اس میں حسنِ معاملہ ، صداقت اور دیانت داری کا ہونا ضروری ہے جبکہ جھوٹ ، دھوکا اور وعدہ خلافی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں حضرت مُعاذ بن جبلرضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے : رسولِ انور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ ہدايت نشان ہے : تمام کمائیوں میں زیادہ پاکیزہ اُن تاجروں کی کمائی ہے کہ جب وہ بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں اور جب اُن کے پاس اَمَانَت رکھی جائے تو خِیانَت نہ کریں اور جب وعدہ کریں تو اُس کا خلاف نہ کریں اور جب کسی چیز کو خریدیں تو اُس کی مَذمَّت (بُرائی) نہ کریں اور جب اپنی چیز بیچیں تو اُس کی تعریف میں حد سے نہ بڑھیں اور ان پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں ڈِھیل نہ ڈالیں اور جب ان کا کسی پر آتا ہو تو سختی نہ کریں۔ )شعب الایمان ، 4 / 221 ، حدیث : 4854(

اس مضمون میں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی پیاری سیرت کے روشن تجارتی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے ، انہیں سامنے رکھتے ہوئے اپنی تجارت کو فروغ دیجئے اور دین و دنیا کی برکتیں سمیٹئے۔

حسن معاملہ:

لوگوں کے ساتھ اچھے انداز سے پیش آنا ، اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔ اس کے ذریعہ سے انسان دوسروں سے ممتاز اور معاشرے کا بااثر شخص بن جاتا ہے ، اگر یہی خوبی ہمارے تجارتی معاملات میں ہو تو کامیابی قدم چومے گی اور دین اسلام کی طرف غیر مسلم مائل ہوں گے۔

حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن سائب  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں زمانۂ جاہلیت میں حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا شریکِ تجارت تھا ، میں جب مدینۂ منوَّرہ حاضِر ہوا تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : مجھے پہچانتے ہو؟میں نے عَرْض کی : کیوں نہیں! آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تو میرے بہت اچھے شرِیکِ تجارت تھے نہ کسی بات کو ٹالتے اور نہ کسی پر جھگڑا کرتے تھے۔ )خصائص کبریٰ ، 1 / 153(

:امانت داری

فی زمانہ دیکھا جائے تو آج لوگ امانت کو چھوڑ کر خیانت میں فائدہ تلاش کررہے ہیں جبکہ فائدے کا دار و مدار حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّت و اسلامی طریقہ اختیار کرنے میں ، امانت دار تاجر کے بارے میں فرمانِ مصطفےٰ ہے :  اَلتَّاجِرُ الصَّدُوقُ الاَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ ، وَالصِّدِّيقِينَ ، وَالشُّهَدَاء  یعنی سچا اور دیا نت دار تاجر (جنّت میں) انبیا ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔ )ترمذی ، 3 / 5 ، حدیث : 1213(

منقول ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے تجارت کی غَرَضْ سے مُلکِ شام و بصریٰ اور یمن کا سَفَر فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ تجارتی کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا اور تمام اہلِ بازار آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔ )سیرتِ مصطفیٰ ، ص103(

صداقت:

یوں تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دِینی و دُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے کہ سچ بولنا نجات دلانے اور جنّت میں لے جانے والا کام ہے۔

لیکن دکاندار اپنے معاملات میں سچائی سے کام لے تو اس کے مال میں برکت ہوگی جبکہ جھوٹ سے برکت اٹھا لی جاتی ہے جیساکہ رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : خریدنے اور بیچنے والے اگر سچ بولیں اور مُعَامَلہ واضِح کر دیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ دونوں کوئی بات چھپا لیں اور جھوٹ بولیں تو اس سے بَرَکت اٹھا لی جاتی ہے۔ )بخاری ، 2 / 13 ، حدیث : 2079(

دھوکا دہی سے بچنے کا حکم:

دھوکا دہی شديد حرام اور اللہ پاک اور اس کے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ناراضگی کا سبب ہے۔ ايسا کرنے والا گناہ گار ہے۔

ایک بار سرورِ کائنات ، فَخْرِ مَوجُودات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے ، اپنا دستِ مُبارَک اس ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں پر کچھ تری محسوس ہوئی۔ غلے والے سے اِسْتِفْسَار فرمایا : یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا : یارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! اس ڈھیر پر بارش ہوگئی تھی ، اِرشاد فرمایا : پھر تم نے بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے! اور فرمایا : جوشخص دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم ، ص64 ، حدیث : 284)

اس حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا تجارتی چیز میں عیب پیدا کرنا بھی جُرْم ہے اور قدرتی طور پر پیدا شدہ عیب کو چھپانا بھی جُرْم۔ )مراٰۃ المناجیح ، 4 / 273(

امیرُ المؤمنین حضرت ابوبکر صِدِّیق  رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : جو کسی مؤمن کو ضَرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکا بازی کرے وہ مَلْعُون ہے۔ )ترمذی ، 3 / 378 ، حدیث : 1948(

پس جو اللہ پاک اور اس کے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رضا ، دين و دنيا کی سلامتی ، عزت اور اپنی آخرت کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے کاروبار کو دھوکے اور ملاوٹ سے پاک رکھے۔

وعدہ خلافی کا وبال:

وعدہ خلافی کے بہت سے نقصانات ہیں : بدعہد شخص لوگوں میں اپنا اِعْتِماد کھو دیتا ہے۔ وعدہ خلافی باہمی تعلقات کو کمزور کرتی ہے ، اُخُوَّت و مَحبَّت اور ہمدردی کے جذبات کو مَجْرُوح کرتی ہے۔ اس کے سبب باہمی تعلقات میں بےاطمینانی کی کَیْفِیَّت پیدا ہوتی ہے۔ بد عہدی مُنافقت کی عَلامَت ہے۔ وعدہ توڑنے والا دنیا میں تو ذلیل و رسوا ہوتا ہی ہے آخرت میں بھی رسوائی اس کا مُقَدَّر ہوگی۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ اللہ پاک جب (قیامت کے دن) اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا (اور کہاجائے گا) کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ )مسلم ، ص739 ، حدیث : 4529(

حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اِرشادِ گرامی ہے : جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے ، اُس پر اللہ پاک ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اُس کا کوئی فَرْض قبول ہوگا نہ نَفْل۔ )بخاری ، 1 / 616 ، حدیث : 1870(

ایک موقع پر اِرشَاد فرمایا : جو قوم بدعَہدی(یعنی وعدہ خلافی) کرتی ہے اللہ پاک اُن کے دشمنوں کوان پر مُسلَّط کردیتا ہے۔ )قرۃ العیون ، ص392(

جھوٹی قسموں سے اجتناب:

آج لوگ جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹ بولنے کو کمال اور ترقی کی علامت اور سچ کو بےوقوفی اور ترقی میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔

فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ پاک نہ کلام فرمائے گا اور نہ ہی ان کی طرف نَظْرِ رَحمت فرمائے گا : (ان میں سے)ایک وہ ہے جو کسی سامان پر قسم کھائے کہ مجھے پہلے اس سے زیادہ قیمت مِل رہی تھی حالانکہ وہ جھوٹا ہو۔ )بخاری ، 2 / 100 ، حدیث : 2369(

ایک روایت میں ہے : قسم مال کو بکوانے والی لیکن بَرَکَت مٹانے والی ہے۔ )الترغیب والترہیب ، 2 / 369 ، حدیث : 16(

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں : ممکن ہے بَرَکَت (مِٹ جانے) سے مُراد آئندہ کاروبار بند ہو جانا ہو یا کئے ہوئے بیوپار (Business) میں گھاٹا (نقصان) پڑ جانا یعنی اگر تم نے کسی کو جھوٹی قسم کھا کر دھوکے سے خراب مال دے دیا وہ ایک بار تو دھوکا کھا جائے گا مگر دوبارہ نہ آئے گا نہ کسی کو آنے دے گا ، یا جو رقم تم نے اُس سے حاصِل کرلی اُس میں بَرَکت نہ ہوگی کہ حَرام میں بے برکتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ، 244 / 4)

ناپ تول میں کمی سے بچنا:

بعض دکاندار جلد مالدار بننے کے چکر میں حلال و حرام کی تمیز کرنا بھول جاتے ہیں اور ناپ تول میں کمی کرکے بیچنے لگتے ہیں حالانکہ یہ جائز نہیں۔ پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ معظم ہے : پانچ چیزیں پانچ چیزوں کا سبب ہیں۔ عرض کی گئی : يارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! پانچ چیزوں کے پانچ چیزوں کا سبب ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : (1)جس قوم نے عہد توڑا تو اس پر اُس کے دشمن کو مسلط کر دیا گیا (2)جس قوم نے اللہ پاک کی کتاب کے خلاف فيصلے کئے تو اُس میں فقر فاقہ عام ہو جاتا ہے (3)جس قوم میں فحاشی عام ہوجائے تو اُس میں موت پھیلنے لگتی ہے (4)جس قوم نے زکوٰۃ ادا نہ کی تو اُس سے بارش روک لی گئی اور (5) جس قوم نے ناپ تول میں کمی کی تو اُس سے سبزہ کو روک لیا گیا اوراُسے قحط سالی نے آلیا۔ (معجم کبیر للطبرانی ، 11 / 37 ، حدیث : 10992)

سود سے گریز:

تجارَت میں پائی جانے والی بُرائیوں میں سے سود (Interest) ایسی خبیث بُرائی ہے جس نے ہمیشہ مَعِیْشت (Economy) کو تباہ و برباد ہی کیا ہے ، بظاہر فائدے مند نظر آتا ہے ، لیکن یہ بہت ہی نقصان دہ ہے۔ احادیثِ کریمہ میں سود کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ، حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہُ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : شبِ معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) تھے ، ان پیٹوں میں سانپ موجود تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے۔ میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہا : یہ سُود خور ہیں۔ (ابن ماجہ ، 3 / 71 ، حدیث : 2273)

فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذھبی ، ص70)

سُود خور چاہے جتنا بھی مال کما لے در حقیقت دنیا و آخرت میں نقصان ہی اٹھاتا ہے ، تاجدارِ رِسالت ، شہنشاہِ نبوّت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ عالی شان ہے : سُود (Interest) اگرچہ (ظاہری طور پر) زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔ (مسند امام احمد ، 2 / 109 ، حدیث : 4026)

عیب والی چیز کا عیب ظاہر کرنا:

تاجر کا عیوب ظاہر کئے بغیر کسی چیز کا بیچنا جائز نہیں ، ایسے لوگوں سے ربِّ کریم ناراض ہوتا ہے اور اللہ پاک کے معصوم فرشتے لعنت بھیجتے ہیں جیسا کہ حضرت واثلہ  رضی اللہُ عنہ  سے مروی ہے کہ حُضور ِاکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : جس نے عیب والی چیز بیچی اور اُس کو ظاہر نہ کیا ، وہ ہمیشہ اللہ پاک کی ناراضی میں ہے اور فرشتے ہمیشہ اُس پرلعنت کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ ، 3 / 59 ، حدیث : 2247)

حضرت عقبہ بن عامر  رضی اللہُ عنہ  سے مروی ہے کہ حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور جب مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی چیز بیچے جس میں عیب ہو تو جب تک بیان نہ کرے ، اسے بیچنا حلال نہیں۔ (ابن ماجہ ، 3 / 58 ، حدیث : 2246)

ربِّ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے فرامین کے مطابق خرید و فروخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔                                            اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

Leave a Reply